ٹیڑھی دیوار- اردو ادب کی ایک منفرد تحریر
ٹیڑھی دیوار- اردو ادب کی ایک منفرد تحریر
تھکا ہارا گھر پہنچا صحن میں موجود سیڑھیوں پر قدم رکھا وہی سیڑھیاں جو مجھے میرے کمرے تک لے جاتی ہیں جوں جوں قدم اپر کی جانب اٹھاتا جسم بھاری سا محسوس ہونے لگتا۔ کمرے میں پہنچ کر ارادہ کیا کہ لیٹ جاوں شاید کچھ تھکن دور ہو جائے۔ لیٹا تو سوچوں کا ایک ریلا آیا اور بہا لے گیا۔
خیال کے تانے بانے شکلیں، عمارتیں، گلیاں، بازار، لوگ، شہر اور نجانے کیا کیا بنتے ۔ریے
کسی عمارت کی تعمیر کا شروع تھا کافی حد تک تعمیر ہو چکی تھے۔ ایک طرف موجود دیوار کے پاس کچھ لوگ گھڑے تھے اور بحث اس بات پر ہو رہی تھی کہ دیوار ٹیڑھی نظر آ رہی، مگر اندازہ نہیں ہو رہا کہ کہاں سے ٹیڑھی ہے۔ میں بھی پاس ہی کھڑا ہو گیا۔
ایک صاحب کہنے لگے وہ وہاں وہ دیکھیں اوپر سے ٹیڑھی ہے دوسرے صاحب بولے لگتا ہے اینٹوں میں فرق ہے کسی نے کہا نہیں میاں ناک پر عینک درست کرو دیوار میں نہیں نظر میں فرق ہے۔مختصر یہ کہ ہر کوئی اپنی اپنی راگنی آلاپ رہا تھا اور میں سوچوں میں گم دیوار کو دیر تک دیکھتا رہا۔
دیوار چننے والے کو مستری کہتے ہیں مستری کے پاس کرنڈی، تیشہ، سال، سوتر اور گرمالی ہوتے ہیں۔
پہلے پلاٹ خریدا جاتا ہے اس کے بعد نقشہ ترتیب دیا جاتا ہے، نقشے کے مطابق زمین کے اس حصے پر جسے خریدا ہوا پلاٹ کہتے ہیں کھودوا کر بنیادیں رکھیں جاتی ہیں۔ بنیادیں رکھتے وقت بھی مستری اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہر ہر پتھر کو بڑی مہارت سے تیشہ کی مدد سے تراش کر توڑ کر لگاتا ہے۔
سال ایک مخصوص قسم کا آلہ ہوتا ہے جس کے ایک طرف قریب کوئی ڈیڑھ سے دو پاو وزنی لوہے کا لاٹو ہوتا ہے لوٹے کے اوپر والی طرف ایک ’’سوتر‘‘ ہوتا ہے اس ’’سوتر’’ میں ایک لوہے کا چھوٹا سا راڈ ہوتا ہے جس کے درمیں میں سے سوتر کو ایسے گزارا جاتا ہے کہ وہ راڈ چل کر لاٹو کے اوپر والے حصے تک آسکے اور پھر واپس سوتر کے آخری حصے تک جا سکے۔۔ یہ آلہ دراصل دیوار یا بنیادوں کو اپر بڑھاتے وقت سیدھا رکھنے میں مدد دیتا ہے جب دیوار یا بنیاد ایک یا دو فٹ تک اوپر چلی جاتی ہے تو اس آلے کے راڈ کو پکڑ کر دیوار کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور سال کے لاٹو کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے لاٹو دیوار کے ساتھ اگر مناسب آزادی سے ٹکرا رہا ہے اور تو اس کا مطلب ہے دیوار سیدھی چڑھ رہی ہے۔
مستری کے پاس سال کے علاوہ سوتر بھی ہوتا ہے جو دیوار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سیدھا باندھا جاتا ہے تاکہ دیوار کا ردا زمین پر دائیں یا بائیں نہ لگ جائے۔۔
یہ سارا عمل مستری کی مہارت پر منحصر ہے اگر مستری چھوٹی سے غلطی کرتا ہے یا لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے تو دیوار ٹیڑھی لگ جاتی ہیں اور ٹیڑھی ہے یا نہیں اس بات کا علم اس وقت ہوتا ہے جب دیوار سر سے اوپر تک یا سر تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
پھر اس دیوار کو دیکھنے والے دیکھ کر ایک ہی لمحے میں بتا سکتے ہیں کہ دیوار میں ٹیڑھا پن ہے۔۔
شخصت بھی ایک عمارت کی مانند ہوتی ہے اس کی تعمیر کا کام بھی مستری ہی کرتا ہے فرق اتنا ہے کہ اس مستری کے پاس لہجے کی کرنڈی، سختی کا تیشہ ، محبت کی سال، نرمی کا سوتر اور پزیرائی کی گرمالی ہوتے ہیں۔
چھوٹی سے غلطی ایک چنی ہوئی دیوار کو ٹیڑھا کر سکتی ہے۔۔
ایسی ہی چنی گئی ایک دیوار کے پاس کچھ لوگ کھڑے تھے اور بحث اس بات پر ہو رہی تھی کہ دیوار ٹیڑھی نظر آ رہی، مگر اندازہ نہیں ہو رہا کہ کہاں سے ٹیڑھی ہے۔ ایک صاحب کہنے لگے وہ وہاں وہ دیکھیں اوپر سے ٹیڑھی ہے دوسرے صاحب بولے لگتا ہے اینٹوں میں فرق ہے کسی نے کہا نہیں میاں ناک پر عینک درست کرو دیوار میں نہیں نظر میں فرق ہے۔مختصر یہ کہ ہر کوئی اپنی اپنی راگنی آلاپ رہا تھا اور میں سوچوں میں گم دیوار کو دیر تک دیکھتا رہا