اردو ادباردو کہانی و افسانے

اردو مختصر کہانی ۔ مرد روتے نہیں

4.7
(3)
مرد روتے نہیں ۔ اردو مختصر کہانی
مرد روتے نہیں ۔ اردو مختصر کہانی

انسان کی زندگی میں بہت سی مشکلات آتی ہیں ان مشکلات میں انسان پریشان بھی ہوتا ہے اور تکلیف کی شدت سے چہرے پر دکھ درد بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہیں۔ مشکلات سے دوچار ایک لڑکے کی زندگی کے چند لمحات اردو مختصر کہانی کی صورت میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

شاید اس لڑکے کو مفلسی نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہو شاید اس کے بھی چھوٹے بہن بھائی ہوں جن کی بھوک پیاس اسے کچھ نا کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہو شاید اس کی بہنیں جوان ہوں اور کنواری ہوں۔ شاید اس کے ماں باپ بسر مرگ پر ہوں۔

خدا بہتر جانتا ہے۔ میں نے پوچھا نہیں میں تو بس اس کا چہرہ پڑھتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔ میں نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا اسے ایک مختصر کہانی کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ یہ مختصر اردو کہانی پڑھنے کے بعد مناسب سمجھیں تو کمٹس باکس میں ضرور بتائیے گا کہ میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے۔

اردو مختصر کہانی ۔ مرد روتے نہیں

ہر بار کی طرح پھر ایک بار ناکام و نامراد ہی رہا ،تنگ آیا تو گلے شکوے کرنے لگا پاس بیٹھے ہوئے بولے کوشش کرو کوشش کرو وہ پھر سے کوشش کرنے لگا مگر ہر بار کی طرح اس بار ، پھر ایک بار ناکام و نامراد ہی رہا۔ تھک ہار کر بیٹھ گیا، سوچیں گھیرا تنگ کرنے لگیں سوچ سوچ کر تنگ آ یا پھر سے کوشش کرنے لگا۔۔۔

یہ ایک مبائل ٹھیک کرنے والے کی دوکان تھی کوئی پرانے ماڈل کا مبائل تھا جس کو ٹھیک کرنا تھا مبائل ٹھیک کرنے والے کے قریب کچھ لوگ اور بھی تھے میرا خیال ہے یہ مبائل ان میں سے ہی کسی کا تھا۔

ایک صاحب بولے کوشش کرو زور لگاو کھل جائے گا دوسرا بولا لڑکے تیرے ہاتھوں میں جان ہی نہیں ہے پہلے والا بولا میاں حوصلہ کرو لڑکا کافی سمجھدار لگتا ہے دیکھا نہیں اس نے کس مہارت سے ٹھکنا کھولا ہے اب پیچ نہیں کھل رہا تو یہ تو فکٹری والوں کی غلطی ہے نا۔

لڑکا بولا جناب میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ یہ پیچ میں نہیں کھول سکتا آپ کسی اور کے پاس لے جائیں مگر وہ صاحبان بضد تھے کہ کھل جائے گا کوشش کرو کوشش کرو ۔

لڑکا باریک پیچ کو کھلنے کے لیے ایک ایسا پیچ کس استعمال کر رہا تھا جو اس باریک پیچ کو کسنے یا کھولنے کے لیئے بنا ہی نہیں تھا۔

شاید اس غریب کی دوکان میں یہی ایک پیچ کس ہو گا یا پھر حالات کے مارے کو یہی ایک کام ملا ہوگا۔ اب ظاہر ہے بڑے پیچ کو کھلنے کے لیئے بڑا اور چھوٹے کو کھولنے کے لیئے چھوٹا پیچ کس درکار ہوتا ہے۔ بہت دیر تک وہ ہتھیلی کی گرفت میں مضبوطی سے تھامے ہوئے پیچ کس کو پوری قوت سے چھوٹے سے پیچ پر گھما رہا تھا۔

پیچ کو کھولنے کی کوشش میں اس لڑکے نے زور لگانے کے لیے مبائل فون کو سامنے رکھے میز پر سے اٹھا کر بائیں جانب اپنی گود کے قریب زانو پر رکھ لیا اور بائیں ہاتھ میں پکڑ کو دائیں ہاتھ میں موجود پیچ کس سے پوری قوت سے زور لگا کر پیچ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔

میں یہ سب دیکھ کر متوقع نقصانات کے بارے میں سوچتا ہوا دوکان سے باہر قدم رکھنے ہی والا تھا کہ کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی پلٹ کر دیکھا تو پیچ کس مبائل کے ایک کونے کو توڑتا ہوا اس لڑکے کی ٹانگ میں گھس چکا تھا۔ لڑکا کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ شدید تکلیف میں ہے اس کی انکھوں کے کنارے بھیگ سے گئے مگر اس کی آواز شاید اس لیے بھی نہیں نکلی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ مرد روتے نہیں۔

وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا مگر بے بس تھا۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ اسے پیچ کس لگنے سے ہونے والی تکلیف کا احساس تک نہیں اس کی زندگی میں تو کچھ اور ہی تکلیفیں لکھیں تھیں جن کے درد کو وہ ہر لمحہ محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس پیچ کس سے لگنے والے زخم نے تو اس کے کئی اور زخموں کو چھیل کر نوچ کر رکھ دیا اور تمام زخموں کی تکلیف آنکھوں میں نمی بن کر ظاہر ہوئی مگر ہونٹ تو جیسے سل گئے آواز تو جیسے گلے میں موجود ہی نہیں رہی۔

اس نے مبائل سامنے میز پر رکھا پیچ کس کو میز کی کھلی دراز میں رکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے شخص سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیں میں آپ کا مبائل ٹھیک نہیں کر سکتا میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں۔ وہ شخص بھی شاید سمجھ چکا تھا چپ کر کے چلا گیا۔

لڑکے نے گلاس میں پڑے پانی کے دو گھونٹ بھرے اور ساتھ ہی پڑے ایک اور پرانے مبائل اور اٹھا کر دیکھنے لگا

ہر بار کی طرح پھر ایک بار ناکام و نامراد ہی رہا ،تنگ آیا تو گلے شکوے کرنے لگا پاس بیٹھے ہوئے بولے کوشش کرو کوشش کرو وہ پھر سے کوشش کرنےلگا۔

اس تحریر پر ریٹنگ کیجے

ریٹنگ 4.7 / 5. 3

سید حسن

بتانے کو تو لوگ علم کا پہاڑ بھی بتاتے ہیں مگر میرا مختصر سا تعارف بس اتنا ہے کہ قلمی نام سید حسن، تعلق پاکستان، پنجاب سے ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ اور بلاگنگ سے کافی پرانی شناسائی ہے اور کمپیوٹر کے علوم میں طالب علم کی حیثیت سے ابھی تک صرف ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کر سکا ہوں۔ www.urdumea.com کو میری کم علمی کا ایک ثبوت سمجھیں اس کے علاوہ www.syedhassan.online بھی ایک اور ناکام کوشش ہے۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر کم پڑھ ہوں اور پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری یہ کوششیں آپ کی نظروں کے سامنے ہیں تو امید کرتا ہوں کہ آپ کی علمی طبیعت پر ناگوار نہیں ہوں گیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Discover more from Urdumea.com

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading