آرٹیفشل انٹیلیجنسسائنس و ٹیکنالوجی

کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی؟

3.3
(4)
کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی؟

مصنوعی ذہانت پر کام کرنے کا آغاز 1956 کے زمانہ یا اس سے کچھ قبل ہوا۔ مسلمان سائنس دان یقیناً سائنس کی دنیا میں کچھ ایسے کام کر گئے جن کی بدولت ریاضی کے مضامین کو ترقی کی نئی راہیں ملیں اس کے بعد ہر زمانہ میں کیا مسلم اور کیا غیر مسلم اس میدان میں اپنی اپنی کوششیں کرنے لگے۔

یہ سوال کہ "کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی” انتہائی اہم سوال ہے۔ یقیناً زمانہ قدیم میں سائنسدانوں نے سائنسی علوم پر اس وجہ سے کام کیا کہ انسانوں کو آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی جا سکیں لیکن اب دنیا کو انسانوں کی تخلیقات سے خطرات پیدا ہونے لگے ہیں۔

مصنوعی ذہانت نے پوری دنیا کو جدید مشینیں دیں جو ہر طرح سے انسانوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ اور تو اور اب تو خاوند اور بیویاں بھی ربوٹ میشن یعنی Fembot یا Humanoid Robots کی صورت میں تیار کیے جا چکے ہیں جن کو عام انسانوں میں چلتا پھرتا دیکھ کر یہ بھی محسوس نہیں کیا جا سکتا کہ یہ انسان نہیں۔ بہت ساری وجوہات ہیں جو انسانی ذہنوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔

مصنوعی ذہانت میں خاص طور پر چیٹ بوٹس اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ یہ گھنٹوں کا کام سیکنڈنز میں کر کے دینے لگے ہیں۔ انسانی ذہن پر جو کام گراں گزرتے رہے اب ان مشینوں سے لیے جا رہیں ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی 4 جیسے طاقتور کمپیوٹر جو مصنوعی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہیں انتہائی خطرناک حد تک معلومات کو جمع کر رہے ہیں اور لوگوں تک پہنچا رہے ہیں ان معلومات پر یقین کر لینا انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی؟

مصنوعی ذہانت کی تخلیق انسانیت کے فائدے کے لیے ہوئی اگر اس تخلیق کو انسانیت نے قوائد و ضوابط کے زیر نگرانی استعمال کیا تو یہ انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت جس انداز سے دور حاضر میں اپنے آپ کو طاقتور کرتی جا رہی ہے مستقبل میں اس سے دنیا کو خطرہ ہے۔ اور یہ خطرہ دنیا میں موجود ایٹمی جنگ کے خطرات سے زیادہ ہے۔

مصنوعی ذہانت سے دنیا کو خطرات کے متعلق پیش گوئیاں

Artificial Intelligence کے میدان میں عرصہ دراز سے کامیابیاں حاصل کی جاتی رہی ہیں لیکن اب اس دور میں مصنوعی ذہانت کو مضبوط بنانے کے لیے جو تجربات کیے جا رہے ہیں ان کے نتائج دیکھ کر سب پریشان ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں میں سلف لرننگ Self Learning کا نظام ایسا نظام ہے جو ان میشنوں کو خودکار انداز میں سیکھنے میں مدد دیتا ہے اور سیکھنے کا یہ عمل اس حد تک پہنچ سکتا ہے کہ انسانی ذہنوں کی طرح یہ مشینیں بھی خود کو طاقتور بنا لیں گی۔

بی بی سی اردو پر ایک تحریر شائع ہوئی جس میں چند پیش گوئیاں کی گئیں جن سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کے لیے خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ ان پیش گوئیوں پر یقین کرنے کے لیے بہت ساری وجوہات موجود ہیں چند میں سے چند حسب ذیل ہیں۔

  • مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرنے والی مشینیں اور روبوٹس یا بوٹس Self Learning پروسس کو استعمال کر کے روزانہ بہت تیزی سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔
  • انسانی زبان کو سمجھنا اور جواب دینا۔
  • کاروباری اداروں میں ورچول ایجنٹس کی موجودگی جو انسانوں کے علم میں اضافے کے لیے موجود ہیں۔ یعنی انسان مشینوں کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
  • انسانوں کی جگہ دور حاضر میں ملازمت اختیار کرنے والی جدید مشینیں۔
  • چیٹ بوٹس جیسے مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر جن میں موجود ڈیٹا جو ویڈیوز، تصاویر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہے بہت ہی زیادہ مقدار میں ہے۔
  • ایسے روبوٹس جو خودکار انداز میں کام کر رہے ہیں۔
  • Artificial neuron سسٹم کی تخلیق جو انسانی دماغ کی طرح ایک دوسرے سے رابطہ بنانے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
  • Deep learning جیسی ٹیکنالوجی جس کی مدد سے کسی بھی درپیش مسئلہ کو بہت باریکی سے دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور اس پر پوری رپورٹ ترتیب دینے کے قابل ہے۔
  • جدید ترین کمپیوٹر پروگرامز جن میں انسان کے پاس موجود احساسات کو سمجھنے اور ان پر جواباً احساسات میں جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے
  • ایسے جدید روبوٹس اور سسٹمز جن میں سونگھنے، سوچنے، سسنے، سمجھنے، دیکھنے اور چلنے پھرنے جیسی قوت موجود ہو۔

یہ سب ایسی وجوہات ہیں جن کو دیکھ اور سمجھ کر ایک لمحہ کے لیے انسان اس پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر یہ سب مشینیں اس قدر طاقتور ہو جائیں کہ یہ آزادی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے لگ جائیں تو دنیا پر ان کی حکومت ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔

طاقتورDeep Blue پروگرام اور شطرنج کی چال

اس سے قبل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیا ہے کے عنوان پر ایک مضمون میں اس سافٹ ویئر کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام IBM کمپنی نے تیار کیا اور اس پروگرام کو اس قدر ٹرین کیا گیا کہ یہ شطرنج کی ہر چال کو سمجھنے اور اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے پر مہارت رکھتا تھا۔ یہ 1997 کے قریب کی بات ہے جب DEEP BLUE نامی مصنوعی ذہانت کے ایک کمپیوٹر پراگرام نے دنیا کے ماہر شطرنج کھلاڑی کو سب کی انکھوں کے سامنے گھوما کر رکھ دیا اور بری طرح سے مات دی۔

ڈیپ بلو کی اس کامیابی پر IBM کمپنی نے سائنس کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے نئے دروازے کھول دیے۔ اس کے بعد تو جیسے مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرنے والے پروگرامز کا لشکر تیار ہونے گا اور دنیا دیکھتی رہی کہ کس طرح سے اس ٹیکنالوجی نے اپنا مقام بنانا شروع کر دیا۔

مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والا جدید پروگرام چیٹ جی پی ٹی

ChatGPT گو کہ کافی عرصہ سے بہت سارے کمپیوٹر پروگرامز کا حصہ ہے لیکن سال 2021 کے بعد سے چیٹ جی پی ٹی نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں اپنی طاقت دکھا کر سب کو حیران کر دیا۔ چیٹ جی پی ٹی فور یعنی ChatGPT-4 انتہائی تیز رفتار Artificial Intelligence پروگرام ہے جو کہ مائکروسافت کمپنی کے بنائے ہوئے جدید ترین نظام پر چلتا ہے۔ اس پروگرام کو مائکروسافٹ اور دیگر جدید ترین سائنس کی کمپنیوں کی مدد سے چند ماہ میں تیار کیا گیا ہے۔

یہ پروجیکٹ اوپن اے آئی کمپنی کی طرف سے جاری کیا گیا۔ اس پروگرام میں لاکھوں پروسسرز کو استعمال کیا گیا ہے اور بہت بڑی ڈیٹا بیس تخلیق دی گئی ہے جو مائکروسافت کمپنی کے اشتراک سے بنی۔

چیٹ جی پی ٹی 4 نے 90 فیصد نمبر حاصل کیے دنیا حیران رہ گئی

چیٹ جی پی ٹی نے Self Learning پروسس کا بہتریں استعمال کیا اور 90 فیصد نمبر حاصل کر کے انسان امیدواروں سے واضح برتری دکھائی۔ چیٹ جی پی ٹی نے امتحانات میں انسانوں کی طرح امتحان دیے اور ہر امتحان میں اپنی موجودگی کا احساس دلوا کر یہ ثابت کیا کہ مشین اب انسانی ذہن تک رسائی حاصل کرنے لگی ہے۔ مشین انسانوں کی طرح امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہے۔

یہ ایک ایسا چیٹ بوٹ ہے جس میں اربوں کھربوں کی تعداد میں الفاظ، تصاویر، تحریرں اور دیگر معلومات محفوظ ہیں۔ ان معلومات کا استعمال کرتے ہوئے یہ پروگرام ہر سوال کا جواب دینے کے قابل بنتا جا رہا ہے اس کے علاوہ اپنی سوچ اور معلومات کی بنیاد پر جوابات بھی دینے لگا ہے۔

نوٹ: ChatGPT کے متعلق اردو میں ایک تحریر اس سے قبل "چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟” کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے جس میں ہم نے چیٹ جی پی ٹی پروگرام کے بارے میں تفصیل سے تحریر کیا اگر آپ چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس تحریر کو ضرور پڑھیں۔

مصنوعی ذہانت کا بے قابو ہو جانا

کچھ عرصہ پہلے ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی کہ چیٹ بوٹس کی مدد سے کسی کو قتل بھی کروایا جا سکتا ہے۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی۔ یعنی روبوٹس کی مدد سے ایسے کام بھی کروائے جا سکتے ہیں۔ سوچیں کہ اگر کوئی ایسا روبوٹ ہو جس کے پاس بہت ساری خفیہ معلومات ہوں اور یہ ربوٹ مصنوعی ذہانت بھی جانتا ہو تو اگر یہ بے قابو ہو جائے تو کیا یہ ایسی حرکتیں نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے انسانیت کو نقصان ہو؟ یقیناً کر سکتا ہے۔

اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر ایک پروگرام جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے اور ساتھ ساتھ سلف لرننگ پروسس بھی رکھتا ہے اس کے پاس اگر ایسا ڈیٹا موجود ہو جس میں انسانوں کو سلف ڈیفنس سیکھانے کے لیے کسی بھی حملے کی صورت میں پاس پڑی کوئی چیز اٹھا کر استعمال کرنے کا طریقہ موجود ہو تو کیا ہو گا یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی بھی سوال کے جواب میں یا کسی بھی بات پر یہ روبوٹ سلف ڈیفنس میں چلا جائے تو سامنے موجود انسان کو یقیناً نقصان ہو گا۔

ہم جانتے ہیں کہ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کے پروگرامز احساسات اور جذبات نہیں رکھتے یہ پہلے سے موجود معلومات اور تجربات کو پروسس کر کے جواب دیتے ہیں اور انسان کا مشین سے سوالات کرنا بھی قوائد کے مطابق ہو تو مشین بہتر اور سادہ جواب دیتی ہے۔ اگر انسان کوئی ایسا سوال کرے جس کے کئی حصے ہوں تو مشین اس سوال کے جواب میں کسی بھی ایک حصہ کو چن کر اسی پر جواب دے سکتی ہے یہ مشین کا ایک فالٹ بھی ہو سکتا ہے۔

سلف ڈیفنس کی معلومات پر مار پیٹ یا قتل کر دینا

یعنی کسی بھی برقی ربط یہ پرزے کی خرابی یا معلومات کے پروسس میں پیچیدگی کی وجہ سے ربوٹ مشین بے قابو ہو سکتی ہے اور پھر اس کے بعد جب تک اس کے پروگرام کو درست نہیں کیا جائے وہ کافی نقصانات کر سکتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک چیٹ بوٹ موسمی حالات پر اگلے چوبیس گھنٹے میں شدید طوفان کی پیش گوئی کر کے اسے انٹرنیٹ کے ذریعہ سوشل میڈیا اور ہر جگہ پر پوسٹ کر دے تو سوچیں انسانوں میں کتنی بے چینی اور پریشانی پھیل جائے گی اس کے بعد اس پورے ملک کے حالات بھی خراب ہو سکتے ہیں۔

غلط معلومات کی فراہمی

ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا دور ہے اور ہماری تمام معلومات اور ڈیٹا مشینوں اور سوشل میڈیا کے پاس موجود ہے ہمارے مبائل فون ہر وقت ہماری معلومات کو کسی نہ کسی جگہ محفوظ کر رہے ہیں ان کے ذریعہ سے ہمیں سہولتیں بھی ہیں لیکن خطرہ بھی ہے ۔

ہمارے مبائل میں موجود نیویگیشن سسٹم، ہمارے مبائل میں موجود مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرنے والے ورچول اسسٹنٹس اب ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئے دن غلط قسم کی معلومات شیئر کی جاتی ہیں جن کا کوئی سر پاؤں نہیں ملتا۔

جھوٹی خبریں پھیلانے سے کسی بھی ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ یعنی ایسی معلومات سوشل میڈیا وغیرہ یا ایسے چیٹ بوٹس کی مدد سے بہت تیزی سے پھیل کر پوری دنیا کو پریشان کر سکتی ہیں اور پھر اس قدر زیادہ ڈیٹا اور معلومات میں کون سی معلومات غلط ہیں اور کہاں کہاں تک پھیل چکی ہیں کا پتہ چلانا انتہائی مشکل ہے۔

ربوٹس اور انسانی زندگی

کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی؟
کیا مصنوعی ذہانت دنیا پر قبضہ کر لے گی؟

روبوٹس کی تخلیق انسانوں کے لیے انتہائی فائدہ مند رہی ہے لیکن اب ایسے ایسے ربوٹس بھی تخلیق کیے جا چکے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ انسان ہیں یا ربوٹس۔ فیم بوٹ Fembot بھی ان کی ایک مثال ہے۔ یہ بوٹس فی میل روبوٹس ہیں جو کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو استعمال کرتے ہیں۔ ان روبوٹس میں سنسر لگا کر انہیں اس قابل بنایا گیا ہے کہ چھونے پر یہ رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں ان روبوٹس کی اب بہت مانگ ہے یہ اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں اور آرڈر کے مطابق بھی تیار ہوتے ہیں۔

ان روبوٹس کو جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ان روبوٹس کو دوستی اور گھریلو خواتین کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بہت سے اداروں میں یہ Fembots باقاعدہ ملازمت بھی کرتے ہیں یعنی بطور اسسٹنٹ وغیرہ۔

ان ربوٹس کے تمام اعضا انسانوں کی طرح بنائے جاتے ہیں اور سیلیکون وغیرہ جیسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ انسانی جسم کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔

جدید سہولیات اور ان کا کنڑرول

جدید دور میں بہت بڑے بڑے اداروں میں اور گھروں میں بھی ایسی گیجٹس وغیرہ استعمال کیے جانے لگے ہیں جن کا کنیکشن کسی نا کسی مین سرور سے ہوتا ہے اور یہ مین سرور ایسے پروگرام استعمال کرتا ہے جو مصنوعی ذہانت رکھتے ہیں۔ یہ جدید مشینیں اور ان میں موجود مصنوعی دماغ اور ڈیٹا مل کر تمام چیزوں کو آپریٹ کرنے کی صلاحیت رکتھے ہیں۔

مصنوعی ذہانت میں موجود سلف لرننگ پروسس ایک ایسا پروسس ہے جس کی مدد سے مشین کو سکھایا جاتا ہے کہ اس نے کس موقع پر کیا کرنا ہے۔ مشین جب یہ ساری باتیں سیکھ سکتی ہے تو وہ ایک اچھی اور بری مشین بھی ہو سکتی ہے۔ مشین کو دیے جانے والے ڈیٹا اور معلومات میں اچھائی اور برائی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ مشین کا بگڑ جانا یعنی خودبخود کچھ بھی کرنے لگ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک لائٹ سوچ یا ایک سرکٹ خراب ہو جائے تو مکمل تباہ ہونے سے پہلے اور آن کی جگہ آف اور آف کی جگہ آن بھی ہونے لگ جاتا ہے یعنی انسانی اصول اور ضرورت کے مخالف چلنے لگتا ہے جو کہ پریشانی کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح بڑے پیمانے پر سیکھ کا عمل یا خرابی ظاہر ہے بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

دنیا پر حکومت کرنے کی دوڑ اور ادارے

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری اس دنیا یعنی زمین پر موجود بہت سارے ممالک ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ بڑی بڑی سپر پاورز چاہتی ہیں کہ پوری دنیا میں حکومت کر سکیں یعنی پوری دنیا پر قبضہ کر کے تمام انسانوں اور اداروں کو اپنے زیر اثر بنا سکیں۔ ایسے ہی ممالک آئے دن پوری طاقت اور پیسہ لگانے کے بعد جدید سے جدید قسم کی مشینیں بنا رہے ہیں۔

شاید مستقبل میں ہونے والی جنگیں توپ کے گولوں یا میزائلوں سے لڑی ہی نا جائے اور آنے والوں وقت میں جنگوں میں استعمال ہونے والی بندوقیں اور جہاز اور ٹینک اور توپیں سب ایک طرف رکھ کر ایسی خاموش جنگ Cold War شروع کر دی جائے جس کی وجہ سے غیر محسوس انداز میں تباہی پھیلائی جا سکے۔ Cyber War بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جس کی مدد سے کسی بھی ملک میں موجود کمپیوٹرائز نظام اور ڈیٹا بیسز وغیرہ پر وائرس کے ذریعہ حملہ کر کے کنٹرول حاصل کیا جانا ممکن ہے۔ Cyber Security اور اس پر تحقیق اسی جنگ سے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگی ہیں۔

ماضی قریب میں ہمیں یہ بھی سننے کو ملا کہ اب کسی بھی ملک پر قبضہ کرنے کے لیے افواج اور اسلحہ کی ضرورت نہیں بلکہ کوئی بھی وائرس بنا کر ویکسین کی صورت میں انسانوں کو لگا کر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید ترین اسلحہ میں بہت چھوٹی اور بہت طاقتور مکھیاں اور کیڑے مکوڑے بھی فوج کا حصہ ہیں جن میں جدید کیمرے فٹ ہیں جو ہر منظر کو کسی بھی ملک میں موجود ڈیٹا سرور پر لائو شفٹ کرنے کی صلاحت رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ جدید ترین روبوٹس بنائے جا رہے ہیں جو کہ لڑائی بھڑائی کے فن کے ماہر ہیں اس کے علاوہ جدید ترین چپس ہیں جو کہ انسانوں میں داخل کی جا سکتی ہیں جن کی مدد سے انسانوں کے دماغ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور قوائد و ضوابط

جس طرح سے انسان ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں میرے خیال سے ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینا ہو گی کہ ہم اس ترقی کو کس طرح سے اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یعنی بڑی بڑی کمپنیاں جو امریکہ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین مشینیں اور مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرنے والے جدید پروگرام بنا رہی ہیں ان پر کوئی نا کوئی قانون اور قوائد و ضوابط ہونے لازم ہیں۔

سائنس اور اس کی ترقی کی وجہ سے انسانیت کو جو ممکن پریشانیوں کا سامنا ہے ان پر آواز اٹھانا بھی ضروری ہے ایسا جدید ممالک میں ہوتا بھی رہتا ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جدید مشینیں بنانے والی یہ کمپنیاں حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور ہر حکومت اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایشا میں بہت سے ممالک جو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے ہیں ان میں پاکستان کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے ساتھ موجود ممالک جن میں ہندوستان شامل ہے اس جدید دور میں اپنے آپ کو جدید کرتے چلے جا رہے ہیں۔

حرف آخر

کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ اس قوم کو لیڈ کرنے والے یعنی حکمران اور عوام دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جدید دنیا کے تقاضوں اور حصول علم پر پوری طرح توجہ دیں۔ ایک معاشرہ اسی وقت ترقی کرتا ہے جب معاشرے میں موجود مرد و زن اپنے آپ اور اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہوں۔ جب تک تعلیم اور پریکٹیکل علم حاصل نہیں کیا جائے گا ہم کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہو سکتے۔

مصنوعی ذہانت سے کسی کو خطرہ ہو یا نہ ہو مگر ان ممالک کو ضرور ہے جو جدید دور کے ساتھ ساتھ چلنے کے قابل نہیں۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ممالک اور جدید ترین مشینیں بنانے والے ممالک یقیناً کچھ نا کچھ ایسا ضرور تخلیق کر رہے ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے ملک اور قوم کو پوری دنیا سپر پاور اور مضبوط ترین قوم کہے۔

چند ممالک جو کہ جدید دور کے تاریخدان کہلائے جائیں گے ظاہر ہے وہ سب سے زیادہ مضبوط ہوں گے اور پھر انہیں کے نظام اور انہی کی مشینیں باقی ممالک استعمال کریں گے جس کے بعد یقیناً ایسے جدید ملک اپنے سے چھوٹے اور کمزور ممالک پر اپنی حکمرانی کا دعوی بھی کریں گے۔

اس تحریر پر ریٹنگ کیجے

ریٹنگ 3.3 / 5. 4

سید حسن

بتانے کو تو لوگ علم کا پہاڑ بھی بتاتے ہیں مگر میرا مختصر سا تعارف بس اتنا ہے کہ قلمی نام سید حسن، تعلق پاکستان، پنجاب سے ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ اور بلاگنگ سے کافی پرانی شناسائی ہے اور کمپیوٹر کے علوم میں طالب علم کی حیثیت سے ابھی تک صرف ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کر سکا ہوں۔ www.urdumea.com کو میری کم علمی کا ایک ثبوت سمجھیں اس کے علاوہ www.syedhassan.online بھی ایک اور ناکام کوشش ہے۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر کم پڑھ ہوں اور پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری یہ کوششیں آپ کی نظروں کے سامنے ہیں تو امید کرتا ہوں کہ آپ کی علمی طبیعت پر ناگوار نہیں ہوں گیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Discover more from Urdumea.com

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading