اردو ادباردو کہانی و افسانے

کمہار کی دلچسپ کہانی – مختصر اردو کہانی – Urdu Short Stories

1
(1)

کمہار کی دلچسپ کہانی - مختصر اردو کہانی Urdu Short Stories.png
کمہار کی دلچسپ کہانی – مختصر اردو کہانی Urdu Short Stories.png

کمہار مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کہا جاتا ہے۔ کمہار یا مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر اور ان کی کاریگری قدیم ترین ثقافت میں ملتی ہے جو اس پیشہ کو بہت قدیم تاریخ سے وابسطہ کرتی ہے۔

جب سے انسان نے ہوش سمبھالا اور کھانا پینا شروع کیا تو اس وقت سے انسان کو برتنوں کی ضرورت پڑتی رہی۔

وقت اور حالات بدلتے رہے ایک زمانہ ایسا بھی آیا کے امیر ترین لوگ بادشاہ وغیرہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے لگے۔

کمھار مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کہتے ہیں۔ کمھار پیشہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ کیونکہ دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں مٹی کے برتن دریافت ہوئے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین ثقافت موہن جو دڑو سے بھی مٹی کے برتن دریافت ہوئے ہیں مطلب یہ پیشہ بہت قدیم ہے۔

ur.wikipedia

کمہار اور مٹی کے برتن

مٹی سے تخلیق کا عمل شروع ہوا۔ مٹی سے برتن بنانے والے کاریگروں کا یہ پیشہ اب تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ البتہ اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں کمہار موجود ہیں جو جدید ترین تراکیب سے مٹی کو گوندھ کر ان کے برتن بناتے ہیں جو بہت قیمتی تصور کیے جاتے ہیں اور بطور نمائش بھی گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔

کمہار کی دلچسپ کہانی – مختصر اردو کہانی – Urdu Short Stories

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے اپنی سوچ کو بدل کر زندگی گزارنے کا راز پا لیا۔ ایسا نہیں کہ اس شخص نے سوچ کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی بدل لیا ہو لیکن سوچ کے بدلتے ہی اس کی زندگی ضرور بدل گئی۔ تو چلیں اس مختصر اردو کہانی یعنی Urdu Short Stories میں ایک دلچسپ کہانی کو پڑھتے ہیں۔

کُمہار مَٹّی سے کُچھ بنا رہا تھا۔۔۔

کُمہار مَٹّی سے کُچھ بنا رہا تھا، کہ اُس کی بیوی نے پاس آکر پُوچھا کیا کر رہے ہو؟

 کمہار بولا حُقَّہ کی چِلَم بنا رہا ہُوں، یہ سن کر کمہار کی بیوی بولی کہ حقہ کی چلم ہی کیوں تم کچھ اور بھی تو بنا سکتے ہو۔ کمہار نے جواب دیا حقہ کی چلم (تمباکو بھرنے کا برتن جو حقہ پر لگتا ہے) اس لیے بنا رہا ہوں کہ یہ آج کل بہت بک رہی ہے، کمائی اچھی ہو جائے گی۔

 سمجھدار بیوی

کمہار کی بیوی سمجھدار اور سلجھی ہوئی خاتون تھی زندگی کا بہت سارا حصہ اس خاتون نے زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے اور سوچنے میں صرف کیا۔ کمہار کی بیوی کچھ دیر خاموشی کے بعد کچھ سوچ کر بولی:-

کیا زندگی کا مقصد صرف کمائی کا ذریعہ تلاش کرنا اور بہت کچھ کمانا ہے؟ کمہار چلم بناتے بناتے رک گیا اور سوچنے لگا پھر بولا کہ نہیں صرف ایسا ہی تو نہیں۔ زندگی کے اور بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں۔

کچھ اور بنا لو۔۔

کمہار کی بیوی کمہار کی یہ بات سن کر مسکرائی اور چلم جو اس وقت تکمیل کے مراحل میں تھی کو سٹینڈ پر سے ہٹا کر دور رکھ دیا۔ اس کے بعد بولی:-

اگر تم سمجھتے ہو کہ زندگی کا مقصد صرف مال و دولت کمانے کے ذریعہ تلاش کرنا نہیں بالکہ کچھ اور بھی ہے تو پھر آج میری مانو اور چلم کی جگہ تم صراحی بناؤ۔

کمہار کیونکہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی اس سے بہتر انداز میں سوچنے کے قابل ہے اور زندگی کا بہت سارا حصہ اس نے اس کے ساتھ گزار دیا اور بہت سے مواقع ایسے بھی آئے جب اس نے اپنی بیوی کے مشورہ پر عمل کیا اور نقصان نہیں اٹھایا۔

اس کے علاوہ کمہار اپنی بیوی سے محبت بھی بہت کرتا تھا۔ بس مزید کچھ سوچے بغیر اس نے مٹی کا ایک اور پیڑا بنا کر اٹھایا اور اسے سٹینڈ پر لگا دیا۔

پھٹے کے نیچے لگے پہیے کو پاؤں کی مدد سے گھمانے لگا اور دونوں ہاتھوں کو مٹی کے پیڑے کے ساتھ پانی لگا کر دبانے لگا اور مٹی کی شکل تبدیل ہونے لگی۔

چلم کی حیرت اور مٹی کا سوال

کمہاری مکمل ذوق اور شوق سے مٹی کو کمال مہارت کے ساتھ صراحی کے بدن میں ڈھالنے کے لیے مسلسل اپنے ہاتھوں کو دباتا پھیلاتا رہا اور مٹی کی شکل تبدیل ہوتی گئی۔ کمہار صراحی بناتے بناتے مٹی کی خوش بو کو محسوس کرتا رہا اور مٹی کو شکل دینے میں اس قدر مگن ہو گیا کہ اسے اپنے آس پاس کا کوئی خیال نہ رہا۔ خیال آتے رہے جاتے رہے مگر کمہار صراحی بنانے میں مگن رہا۔

اچانک دور پڑی چلم بول اٹھی

اچانک کمہار کو رونے کی آواز آئی کمہار نے ادھر ادھر دیکھا تو اس کی نظر دور پڑی چلم پر پڑی۔ کمہار حیران ہوا کہ یہ رونے کی آواز چلم سے آ رہی ہے۔ کمہار ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ چلم ایک دم پکار اٹھا :-

اے کمہار یہ تو نے کیا کیا مجھے آدھا جسم دے کر تو نے صراحی بنانی شروع کر دی؟

کمہار چلم کے آدھے ادھورے بدن کو کوئی معقول جواب دیتا اچانک کمہار کے ہاتھوں میں موجود صراحی کا بدن چلم کو مخاطب کر کے بولا:-

تم مجھ سے جل رہی ہو تم چاہتے ہو کہ کمہار میری تخلیق نہ کرے۔

چلم یہ بات سن کر غصے سے بولی:-

نہیں ایسا نہیں ہے میں یہ نہیں چاہتی کہ تمہاری تخلیق نہ ہو لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجھے ادھورا چھوڑ کر تمہاری تخلیق ہونے لگے یہ میرے ساتھ کمہار کی نا انصافی ہے اور اس کا جواب اس کو دینا پڑے گا۔

مٹی کا ڈھیربول اٹھا

یہ جھگڑا سن کر کمہار نے ہاتھ روک لیے اور پریشان ہو گیا۔ اس نے ارد گرد دیکھا مگر اس کی بیوی اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی وہ سوچنے لگا کہ اب اس مصیبت سے کیسے نکلوں۔ بیوی کی بات مان کر تو پریشانی اٹھانی پڑ گئی۔

ابھی وہ انہیں خیالات میں گم تھا کے دور پڑے مٹی کے ڈھیر نے صراحی اور چلم دونوں کا ڈانٹ دیا کہنے لگی :-

شرم کرو تم اپنے خالق کے سامنے جھگڑ رہے ہو۔ میں تمہارا اصل ہوں مجھے ہی روپ ملتا ہے تو مختلف برتن بنتے ہیں اور ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ تمہارا جھگڑا غلط ہے خاموش رہو تمہارے سوال کا جواب تمہیں تمہارا خالق یعنی کمہار دے گا۔

اگر اس نے ایک کو ادھورا چھوڑا اور دوسرے کو تخلیق کرنے لگا تو اس کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہو گی۔

اچانک کمہار نے دیکھا کہ اس کی

مٹی کے ڈھیر کی یہ بات سن کر چلم اور صراحی دونوں خاموش ہو گئے۔ کمہار سوچنے لگا کہ میں کیا جواب دوں یہ تو میری بیوی کا مشورہ تھا۔ اچانک کمہار نے دیکھا کہ اس کی بیوی اس کے پیچھے کھڑی ہے اور اس کے کاندھو پر ہاتھ رکھ کر اسے کہہ رہی ہے کہ میں جواب دے دیتی ہوں تم پریشان نہ ہوں۔

کمہار خاموش رہا۔ کمہار کی بیوی نے پہلے چلم کو مخاطب کیا اور بولی:-

مٹی کے ڈھیر نے تمہیں یہ بات بتا دی کہ تمہارا اصل مٹی ہے یعنی تم جس روپ میں بھی رہو جس نام سے بھی جانے جاؤ تمہارا اصل مٹی ہے تمہاری تخلیق کے بعد تمہاری راحت اور تمہاری تکلیف کا اصل اثر اور مرکز بھی تمہارا اصل یعنی مٹی ہے۔ کیا میں نے درست کہا؟

چلم بولا۔ ہاں تم نے درست کہا۔

مٹی کے ڈھیر نے بھی اس بات کی حمایت کی۔ کمہار کی بیوی پھر بولی:-

اے صراحی تیرا بھی یہی حال ہے تیرا اصل بھی وہ دور مٹی کا ڈھیر ہے تیری تخلیق اور تیرا نام کچھ بھی کیسے بھی ہو جائے تیرا آرام تیری پریشانی تیرے اصل کو پہنچے گی۔ صراحی بھی شرمندہ سی ہوئی اور یہ بات سن کر اتفاق کیا۔

کمہار کی بیوی پھر سے بولی۔۔

اے چلم کیا تو جانتی ہے کہ تیری تخلیق کے بعد تجھے حقہ کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے اور تیرے پیٹ میں تمباکو بھر کے تجھے آگ لگائی جاتی ہے۔

چلم ایک دم سے بولی :-

ہاں ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بات سن کر مٹی کا ڈھیر روتے روتے بولا کہ ہاں اس کے وجود آنے کے بعد اس میں آگ بھری جاتی ہے جو میرے لیے شدید تکلیف کا باعث ہے میں جلتی رہتی ہوں اور یہ جلنا بھی ایسا ہے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ میری قربانی رائیگاں جاتی رہتی ہے۔ میری تکلیف کا حاصل راحت نہیں بالکہ تکلیف ہی تکلیف ہے۔

کمہار کی بیوی مسکرائی اور کمہار کی طرف دیکھا۔ اب کمہار کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک تھی۔ کمہار نے مسکراتے ہوئے پھر سے پاؤں دبایا اور مٹی کو صراحی میں تبدیل کرنے کے لیے پوری طاقت لگا دی۔

یہ حرکت دیکھ کر صراحی بھی خاموش رہی اور چلم بھی چپ رہی مگر دونوں اپنی اپنی جگہ پریشان تھے۔ ایک طرف پڑے مٹی کے ڈھیر نے بھی خاموش رہنا مناسب سمجھا۔

کمہار نے کچھ دیر میں مٹی کو مکمل طور پر صراحی میں ڈھال لیا اور پھٹے پر سے جدا کر کے سوکھنے کے لیے رکھ دیا۔

کمہار کے جواب نے زندگی بدل دی

اب کمہار کرسی پر بیٹھ گیا اور پانی پینے کے بعد چلم، صراحی اور مٹی تینوں کو مخاطب کر کے بولا:-

دیکھو بھئی بات یہ ہے کہ میں نے چلم بنانا شروع کی اور میری سوچ یہ تھی کہ چلم زیادہ بکے گی اور مجھے اچھا منافع ملے گا۔ میری بیوی جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں نے مجھے زندگی میں انسان کے مقصد اور ضرورت کے بارے میں سوال کیا اور مجھے کہا کہ چلم کی جگہ صراحی بنا لو۔ میں نے اس کی بات مانی اور صراحی بنا لی۔ اس پر تم دونوں یعنی تم چلم اور تم صراحی نے آپس میں جھگڑا شروع کر دیا۔

تمہارے اصل یعنی مٹی نے بھی کچھ حد تک میرا ساتھ دیا کہ تمہیں ڈانٹ دیا۔ میری بیوی نے جو جواب چلم کو دیا اس جواب نے میری سوچ بدل دی جس پر میں نے صراحی کو مکمل کیا۔

کمہار نے حیران کر دیا

مٹی، صراحی اور چلم کمہار کو دیکھ رہے تھے اور انتظار میں تھے کہ کمہار مزید کچھ کہے تاکہ پتہ چل سکے کہ چلم کو چھوڑ کر صراحی کی تخلیق کے پیچھے کیا راز چھپا ہے۔

کمہار پھر بولا۔

اے مٹی جب ترے وجود کو میں نے چلم میں ڈھال رہا تھا تو مجھے ایک نئی سوچ ملی، تو اگر چلم ہے تو ترے پیٹ میں ہمیشہ آگ بھری جائے گی۔ اگر تو صراحی ہے تو تیرے پیٹ میں پانی بھرا جائے گا تو بھی ٹھنڈک محسوس کرے گی اور تیری بدولت پانی بھی ٹھنڈا رہے گا۔ تیرے یعنی صراحی کے پیٹ میں موجود پانی کو جو پیے گا وہ بھی راحت محسوس کرے گا۔ میری سوچ بدل گئی ہے اسی لیے میں نے چلم کی جگہ صراحی مکمل کی۔

بیشک زندگی کا مقصد صرف ایسے ذرائع تلاش کرنا نہیں جن سے مال دولت کمائی جا سکے بالکہ دوسروں کے لیے بھی فائدہ بخش کام کرنے زندگی کا مقصد ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔

مٹی کے ڈھیر کا خوش ہونا

مٹی کے ڈھیر نے جب یہ بات سنی تو کمہار کو دیکھ کر خوشی سے بولی۔ اے کمہار تیری اس بات سے میرے سینے میں ڈھنٹک پڑ گئی۔ اے کمہار تیری تو صرف سوچ بدل گئی ہے لیکن تیری اس سوچ نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ پانی کو ٹھنڈا رکھنے کی پوری کوشش کروں گی تاکہ پینے والے راحت محسوس کریں۔

اے کمہار تیری سوچ اور عمل سے میں تکلیف سے نکل کر آسانی کی طرف چلی آئی۔

کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے مٹی۔۔۔

کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے آج تک صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مٹی کمہار سے کیا گیا وعدہ پورا کرتی ہے۔ جب بھی مٹی کے برتن میں پانی ڈالا جاتا ہے تو مٹی اس پانی کو ڈھنڈا رکھتی ہے۔ اور کمہار کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے کوشش کرتی ہے۔

اردو مختصر کہانی سے حاصل ہونے والی اہم سوچ

اس مختصر اردو کہانی یعنی Urdu Short Story سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان کو زندگی میں صرف اور صرف اس سوچ کے ساتھ نہیں جینا چاہیے کہ وہ اپنے روزگار اور مال دولت کو بڑھانے کے لیے کوئی بھی کام کر سکتا ہے۔ بالکہ انسان کے اس دنیا میں اور بھی بہت سے مقاصد ہونے چاہیے لیکن یہ مقاصد ایسے ہوں جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوں۔

یہ مختصر اردو کہانی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس کہانی میں موجود کرداد بھی فرضی ہے اور یہ پورا واقع بھی فرضی ہے۔ اس کہانی کا مقصد صرف اور صرف پڑھنے والوں کو مثبت سوچ سے آشنا کروانا ہے۔ واقعاتی انداز میں کسی خیال کر تشہر دینا انسان کی سوچ پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے مختصر اردو کہانی کی صورت میں ایک اچھی سوچ کو تشہر دینے کے لیے یہ کہانی یہاں شائع کی گئی ہے۔

 *آپ سوچ بدلیں زِندگی خُود بَخُود بدل جائے گی…!!*

اردو کی دیگر کہانیاں

اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر

فطرت کیسے بدلتی ہے۔ اردو مختصر کہانی

چلاک لومڑی اورمرغا – اردو مختصر کہانی

سرکار ہرن اور ہاتھی – اردو مختصر کہانی

ٹیڑھی دیوار- اردو ادب کی ایک منفرد تحریر

کائنات اور اس میں موجود ہم سب ۔ مختصر اردو کہانیاں

اس تحریر پر ریٹنگ کیجے

ریٹنگ 1 / 5. 1

سید حسن

بتانے کو تو لوگ علم کا پہاڑ بھی بتاتے ہیں مگر میرا مختصر سا تعارف بس اتنا ہے کہ قلمی نام سید حسن، تعلق پاکستان، پنجاب سے ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ اور بلاگنگ سے کافی پرانی شناسائی ہے اور کمپیوٹر کے علوم میں طالب علم کی حیثیت سے ابھی تک صرف ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کر سکا ہوں۔ www.urdumea.com کو میری کم علمی کا ایک ثبوت سمجھیں اس کے علاوہ www.syedhassan.online بھی ایک اور ناکام کوشش ہے۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر کم پڑھ ہوں اور پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری یہ کوششیں آپ کی نظروں کے سامنے ہیں تو امید کرتا ہوں کہ آپ کی علمی طبیعت پر ناگوار نہیں ہوں گیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Discover more from Urdumea.com

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading