اردو ادباردو کہانی و افسانے

دیوار پر والد کے ہاتھ کے نشان – اردو محتصر کہانی

0
(0)
اردو مختصر کہانی۔ URDU SHORT STORY
WWW.URDUMEA.COM
اردو مختصر کہانی۔ URDU SHORT STORY WWW.URDUMEA.COM

دیوار پر والد کے ہاتھ کے نشان – اردو محتصر کہانی آج کی مختصر اردو کہانی یعنی Urdu Short Story ایک والد اور بیٹے کی ہے۔

اس اردو کی مختصر کہانی میں بیٹے کا والد کو ڈانٹ دینا اور پھر مکافات عمل کہ بیٹے کا بوڑھا ہونا اور پھر اس کی اپنی اولاد کا سلوک ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر انسان کی زندگی سے وابسطہ ہے

اردو میں ڈاٹ کام (www.urdumea.com) ایسی ہی خوبصورت اور اصلاحی کہانیاں یعنی Urdu Short Story لے کر آتا ہے جن سے ہم سب کو کچھ نا کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

ابا جی بوڑھے ہو گئے تھے اور۔۔۔ (اردو مختصر کہانی)

ابا جی بوڑھے ہو گئے تھے اور چلتے چلتے دیوار کا سہارا لیتے تھے۔ دیواروں کا سہارا لے کر چلنے کی وجہ سے ابا جی کے ہاتھوں کے نشانات دیوار پر موجود سفیدی پر بننے لگ گئے۔

نتیجتاً دیواروں کا رنگ خراب ہونے لگ گیا، جہاں بھی وہ چھوتے تھے وہاں دیواروں پر ان کی انگلیوں کے نشانات چھپ جاتے تھے۔

ابا جی کی اس حرکت کی وجہ سے۔۔۔

ابا جی کی اس حرکت کی وجہ سے اکثر میری بیوی مجھ سے ناراض ہوتی تھی اور دیواروں کے گندے ہونے کی بابت روز کچھ نا کچھ کہتی رہتی تھی۔

ایک دن ابا جی کے سر میں درد تھا وہ برآمدہ میں بیٹھے تھے انہوں نے تیل کی بوتل منگوائی اور اپنے سر کی مالش کرنے لگے۔ ہاتھوں سے مالش کرنے کی وجہ سے ظاہر ہے ابا جی کے ہاتھوں پر تیل لگا ہوا تھا۔

ابا جی شاید ہاتھ دھونے کے ارادہ سے اٹھے۔ ان کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا اور بڑھاپے کی وجہ سے وہ مشکل سے چلتے تھے لیکن چلتے پھرتے تھے۔

ابا جی چارپائی کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور چارپائی کے ساتھ والی دیوار پر ہاتھ رکھ لیا اور دیوار کے سہارے کچھ دور بنے واش روم کی طرف بڑھنے لگے۔

ہاتھوں پر تیل لگا ہوا تھا جہاں جہاں ابا جی نے دیوار پر ہاتھ رکھا وہی ان کے ہاتھوں کے نشانات بنتے چلے گئے۔ میں اسی وقت گھر پہنچا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ ابا جی دیوار کا سہارا لیے ہاتھ دھونے پہنچے اور ہاتھ دھو رہے ہیں۔

غصے میں بد تمیزی ۔۔۔۔

میری بیوی نے جب ابا جی کو اور دیواروں کو دیکھا تو وہ بغیر سوچے سمجھے چیخ اٹھی کے ساری دیواریں ابا جی کی وجہ سے خراب ہو چکی ہیں۔ گھر میں کوئی آتا ہے تو ان دیواروں کو دیکھ کر کیا سوچے گا۔

میں روز روز کی اس بحث سے تنگ آ چکا تھا اور تھکن کی وجہ سے میری طبیعت ویسے ہی بوجھل تھی۔ بیوی کی یہ جلی کٹی باتیں سن کر میں نے ابا جی کو غصے میں کہ دیا کہ آپ دیواروں پر ہاتھ رکھ کر نہ چلیں دیواریں گندی ہو چکی ہیں اور اس بات پر گھر کا سکون برباد ہو رہا ہے۔

ابا جی کی آنکھوں میں آنسو

میری یہ بات سن کر ابا جی کا چہرہ ایک دم غمگین ہو گیا اور شاید ان کی آنکھوں میں پانی بھر آیا انہوں نے غمگین آواز میں صرف اتنا کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا میں خیال رکھوں گا اور واپس اپنی چارپائی کی طرف بڑھنے لگے۔ اس بات انہوں نے دیوار کا سہارا نہیں لیا جیسے تیسے پہنچ گئے۔

جب وہ چارپائی تک پہنچے تو۔۔

ابا جی جب چارپائی کے قریب پہنچے تو چارپائی پر بیٹھ کر بہت مشکل سے انہوں نے پاوں اورپر کیے اور چپ چاپ لیٹ کر چھت کو دیکھنے لگے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔

انہیں ایسے خاموش اور مایوس دیکھ کر مجھے شرمندگی ہوئی اور دل میں اپنے آپ کو کوستا رہا کہ یہ کیا کر دیا۔ اسی طرح شام رات گزر گئی اگلے دن میں ابا جی کو سلام کر کے چلا گیا۔ مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میری بات ابا جی کے دل میں جا لگی اور وہ ساری رات اسی بات پر سوچتے رہے اور ناراض بھی ہیں۔

ابا جی نے دیواروں کا سہارا لینا چھوڑ دیا مگر

اس دن کے بعد سے ابا جی نے خاموشی سے دیواروں کا سہارا لینا چھوڑ دیا میں نے ایک دور بار محسوس کیا کہ انہیں میں چارپائی سے اٹھتے کم ہی دیکھ پایا۔ واقع ایسا ہی تھا ابا جی شدید مجبوری کے علاوہ اب اپنی چارپائی سے کم ہی اٹھتے تھے۔

یعنی یوں کہنا مناسب ہو گا کہ اب ابا جی حاجت کے لیے بھی اس وقت تک نہیں جاتے تھے جب تک وہ برداشت کر سکتے تھے ان سب باتوں پر میں نے غور ہی نہیں کیا۔ مصروف زندگی نے مجھے عجیب طرح سے پھنسا دیا شاید ایسی ہی ہوتی ہے زندگی۔

ایک دن میں دفتر تھا کہ مجھے گھر سے فون آیا

دن اسی طرح گزرتے رہے اور میں بھی کافی حد تک اپنی بات بھول چکا تھا مگر شاید میری بات ابا جی کو نہ بھول سکی ظاہر ہے ایک والد کس طرح سے بیٹے کی ایسی حرکت برداشت کر سکتا ہے؟ ایک والد اپنے بچے کو انگلی پکٹر کر چلنا سکھاتا ہے اور ہر طرح سے خیال رکھتا ہے کہ اس کا بچہ گر نہ جائے۔

مجھے اچانک گھر سے فون آیا میری بیوی نے مجھے بتایا کہ ابا جی گر گئے ہیں آپ جلدی سے گھر آئیں۔ میں کچھ ہی دیر میں گھر پہنچ گیا میں نے دیکھا کہ ابا جی چارپائی پر لیٹے ہیں اور خاموش ہیں۔

میرے معلوم کرنے پر بیوی نے بتایا کہ چارپائی سے اٹھ کر جا رہے تھے تو گر گئے اور میں نے سہارے سے واپس چارپائی پر بٹھا دیا بہتر لگ رہے ہیں۔

میں نے ابا جی سے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے کہ میں ٹھیک ہو اور پھر خاموش ہو گئے۔ ان کی خاموشی مجھے شدید تکلیف دینے لگی اور میرا دل ایک دم سے بوجھل ہو گیا۔ میں نے ابا جی کو درد اور تکلیف دور کرنے کے لیے پین کلر دی اور شام میں کچھ کھانا وغیرہ بھی کھلانے کی کوشش کی۔

میں محسوس کر رہا تھا کہ ابا جی کو تکلیف ہے۔

مٰیں محسوس کر رہا تھا کہ ابا جی کو تکلیف ہے رات کو میں نے ان کے کراہنے کی آواز سنی میں باہر آیا تو مجھے ایسا ہی لگا کہ وہ سو رہے ہیں۔ اگلے روز میں انہیں ہسپتال لے کر گیا ڈاکٹر کے مشورہ سے ایکسرے کیا تو پتہ چلا کے ان کی کمر کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔

یہ بات سن کر میرے پیرو تلے زمین نکل گئی۔ ابا جی شدید تکلیف میں تھے مگر اظہار نہیں کر رہے تھے۔ ابا جی گر کر اٹھ تو گئے تھے مگر چارپائی پر لیٹنے کے بعد وہ چارپائی سے ہی لگ گئے۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ابا جی کا بستر بستر مرگ میں بدل جائے گا۔ اگلا پورا روز ابا جی نے بہت تکلیف اٹھائی میں اپنی طرف سے علاج کی کوشش کرتا رہا دوا دارو کرتا رہا۔

کیا پتہ تھا کہ صبح میرے ساتھ کیا ۔۔۔

شام کے بعد میں ابا جی کے پاس ہی بیٹھا رہا جب ابا جی سو گئے تو میں بھی ارام کرنے کی نیت سے جا کر لیٹ گیا جانے کب آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔ میں جلدی سے اٹھا اور سوچا کہ دفتر کے لیے دیر ہو رہی ہے اور ابا جی کے لیے ایک دو ڈاکٹرز سے مشورہ بھی کرنا ہے۔

ابا جی کے پاس گیا اور نہیں دیکھا پرسکون سو رہے تھے سوچا نہیں جگاتا پھر خیال آیا کہ تکلیف میں تھے کھایا پیا بھی کچھ نہ ہوگا تو جگا کر کچھ کھانے کو کہوں۔

ابا جی کو جگانے گیا مگر۔۔ (اردو مختصر کہانی)

ابا جی کو آواز دی مگر وہ نہ جاگے بہت دفعہ پکارنے کے بعد میں نے نہیں ہلایا تو میرا دل ایک دم پرشان ہو گیا اور مجھے برے برے خیالات آنے لگے۔ میں نے ابا جی کے پاس بیٹھ کر انہیں پھر آواز دی ان کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھوں میں لیا تو محسوس ہوا کہ ابا جی کے ہاتھ شدید ٹھنڈے ہیں۔

میرے ہوش اڑ گئے میں نے جلدی سے انہیں چک کیا مجھے دکھ بھرا احساس ہوا کہ میرے ابا جی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ میں ہاتھ ملتا رہ گیا میرے والد اس دنیا میں اب نہ تھے۔

احساس جرم (اردو مختصر کہانی)

میں نے اپنے دل میں احساس جرم محسوس کیا اور میں ان کے تاثرات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا تھا اور اس کے فوراً بعد اپنے آپ کو ان کی موت کے لئے خود کو معاف نہیں کر پاتا ہوں۔

ابا جی کی وفات کو کچھ ماہ گزر گئے زندگی سمبھلنے لگی مگر میرے دل میں ہمیشہ مجھے شرمندگی سے محسوس ہوتی رہے۔ ابا جی کی چارپائی بھی اب دوسرے کمرے میں ایک کونے میں رکھ دی جا چکی تھی۔ ابا جی کے بغیر گھر سونا سا لگتا رہا لیکن وقت ہر درد اور غم کی دوا ہوتا ہے۔

دن گزرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد ہم نے ارادہ کیا کہ گھر کو پینٹ کرواتے ہیں۔ گھر میں سامان اور سفیدی کرنے والے مزدور اور کاری گر آ گئے ۔ انہوں نے اپنا کام شروع کیا تو میرا بیٹا ان میں سے ایک کاریگر کے پاس گیا اور اس کو پکڑ کر ان دیواروں کے پاس لایا جہا پر میرے ابا جی کے ہاتھوں کے نشان موجود تھے انہیں دیکھانے لگا۔

بیٹے کی بات سن کر میں حیران ہو گیا

کہنے لگا یہ میرے دادا کے ہاتھوں کے نشان ہیں انکل اور مجھے دادا بہت یاد آتے ہیں۔ کیا آپ کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ میرے دادا کے ہاتھوں کے نشان ان دیواروں پر سے ختم نہ ہوں؟

اگر آپ ان کو ختم کر دیں گے تو میں آپ کو ان دیواروں کو پینٹ کرنے کی اجاز نہیں دوں گا۔ میرے بیٹے کی یہ بات سن کر پینٹر نے میرے بیٹے کو مسکرا کر دیکھا اور اپنے ساتھ دوسرے کاریگر کو بھی بلوا لیا مجھے بھی آواز دی تاکہ میں بھی اس کے پاس آ سکوں۔

پینٹر نے میرے بیٹے کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کا بیٹا آپ کے ابا جان سے بہت پیار کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے دادا کے ہاتھوں کے نشان کسی طرح محفوظ کر لیے جائیں ورنہ یہ ہمیں رنگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

میں نے خاموشی سے بیٹے کو دیکھا جو میری طرف آنکھوں میں اس بات کا یقین لیے دیکھ رہا تھا کہ میں اس کی خواہش پر اس کا ساتھ دوں گا۔ اس وقت مجھے میرے ابا جی بہت یاد آئے میری انکھیں بھر گئیں اور میں نے بیٹے اپنے ساتھ لگا کر پینٹر کو کہا کہ میرا بیٹا جیسا کہ رہا ہے آپ ویسا کر دیں۔

پینٹر نے یقین دلایا کہ

کہ وہ میرے والد کے فنگر پرنٹس/ ہینڈ پرنٹس کو نہیں ہٹائیں گے، بلکہ ان نشانات کے گرد ایک خوبصورت دائرہ بنائیں گے اور ایک منفرد ڈیزائن بنائیں گے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ پرنٹس ہمارے گھر کا حصہ بن گئے ۔ ہمارے گھر آنے والے ہر فرد نے ہمارے منفرد ڈیزائن کی تعریف کی۔

میں بھی بوڑھا ہوتا گیا

وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی بوڑھا ہوتا گیا۔ اب مجھے چلنے کے لیے دیوار کے سہارے کی ضرورت تھی۔ ایک دن میں چلتے چلتے لڑکھڑایا تو بے اختیار میرا ہاتھ دیوار دیوار کی طرف سہارے کے لیے بڑھ گیا میں نے اپنے ہاتھ اور دیوار کو دیکھا تو میرا ہاتھ میرے ابا کے ہاتھ کے نشان کے اوپر تھا۔

مجھے شدید دکھ ہوا اور اپنے کہے ہوئے الفاظ جو ابا جی کو کہے تھے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ میں شرمندہ ہوا اور دیوار پر سے ہاتھ ہٹا لیا آنکھوں میں نمی لیے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن

شدید چکرایا اور گرنے ہی لگا تھا کہ میرے بیٹے نے مجھے سہارا دیا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور زمین پر ہی بیٹھ گیا۔ میرے بیٹے نے مجھے فورا پانی لا کر دیا میری پوتی جو بہت چھوٹی تھی میرے گھٹنے کے پاس بیٹھی مجھ سے پوچھ رہی تھی کے کیا ہوا کیا ہوا۔

میں روتا رہا اور میرا بیٹھا میری پیٹھ ملتا رہا اور مجھے حوصلہ دیتا رہا اور پھر مجھے اٹھا کر سامنے پڑی چارپائی پر بٹھا دیا یہ چارپائی وہی تھی جس پر میرے ابا جی بیٹھا کرتے تھے یہ وہی جگہ تھی جہاں میرے ابا کی حیات میں یہ چارپائی موجود تھی۔

میں نے دیواروں کو غور سے دیکھا

میں نے دیواروں کو غور سے دیکھا ہر دیوار پر میرے ابا کے ہاتھوں کے نشان واش روم تک جا رہے تھے۔ میرے بیٹے نے آہنستہ سے میرے کام میں کہا کہ ابا جی میں سمجھ چکا ہوں آپ کیا سوچ رہے ہیں آپ فکر نہ کریں میں آپ کا سہارا ہوں اور دادا نے آپ کو معاف کر دیا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید میں آپ کا سہارا نہ ہوتا۔

میں پھر سے رونے لگا

میں پھر سے رونے لگا اور سوچتا رہا کہ میں نے اپنے ابا کو سہارا دیا ہوتا اور ڈانٹا نہ ہوتا تو شاید وہ کچھ عرصہ اور صحت مند رہتے اور انہیں تکلیف کا سامنا بھی نہ ہوتا۔

وہ رات مجھ پر بہت بھاری تھی

وہ رات مجھ پر بہت بھاری تھی میں نے اپنے ابا کے درجات کی بلندی کے لیے بہت دعائیں کی اور ابا سے معافی بھی مانگتا رہا نجانے کس وقت مجھے نیند آ گئی۔

صبح جب آنکھ کھلی تو مجھے یوں لگا جیسے میرا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو اور میرے ابا جی مجھے مسکرا کر دیکھ رہے ہوں۔

اس تحریر پر ریٹنگ کیجے

ریٹنگ 0 / 5. 0

سید حسن

بتانے کو تو لوگ علم کا پہاڑ بھی بتاتے ہیں مگر میرا مختصر سا تعارف بس اتنا ہے کہ قلمی نام سید حسن، تعلق پاکستان، پنجاب سے ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ اور بلاگنگ سے کافی پرانی شناسائی ہے اور کمپیوٹر کے علوم میں طالب علم کی حیثیت سے ابھی تک صرف ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کر سکا ہوں۔ www.urdumea.com کو میری کم علمی کا ایک ثبوت سمجھیں اس کے علاوہ www.syedhassan.online بھی ایک اور ناکام کوشش ہے۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر کم پڑھ ہوں اور پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری یہ کوششیں آپ کی نظروں کے سامنے ہیں تو امید کرتا ہوں کہ آپ کی علمی طبیعت پر ناگوار نہیں ہوں گیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Discover more from Urdumea.com

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading