اردو ادباردو کہانی و افسانے

سرکار ہرن اور ہاتھی – اردو مختصر کہانی

0
(0)
اردو مختصر کہانی
اردو مختصر کہانی

غیر سیاسی، غیر سرکاری اردو مختصر کہانی

ہاتھی ہرن بادشاہ اور سرکار۔ غیر سیاسی، غیر سرکاری اردو کی مختصر کہانی جسے پڑھ کر یقیناً آپ بھی ہکے بکے رہ جائیں گے تو چلیں دیکھتے ہیں کہانی ہے کیا

کہنے لگے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔

میں نے کہا جی ضرور کیوں نہیں جناب۔۔

میری طرف سے جواب ملنے پر کچھ سوچنے لگے اور پھر بولے کہ یہ کہانی غیر سیاسی، غیر سرکاری اور مختصر اردو کہانی ہے اگر تو آپ اسے غور سے سنیں گے تو یقیناً بہت اچھا محسوس کریں گے۔

میں نے کہا ضرور کیوں نہیں آپ کی عمر اور آپ کا تجربہ یقینا جو بھی کچھ کہے گا وہ علمی اعتبار سے بھی فائدہ مند ہو گا۔

وہ مسکرائے اور کہانی سنانے کے لیے چست و چالاک ہو کر بیٹھ گئے اور گویا ہوئے کہ۔۔۔

ایک بادشاہ تھا کسی زمانے میں، اس کے پاس ایک ہرن تھا جس کو بہت عزیز رکھتا تھا، خدمت میں لگا رہتا تھا اور ہر وقت قصیدے کہتا تھا۔

ہرن باشاہ کا بہت پیارا تھا بادشاہ کا دلارا تھا۔ ایک دن چھلانگیں لگاتا لگاتا محل کے ایک دروازے سے بھاگ گیا بہت تلاش کیا نہیں ملا

میں نے ابھی اتنی ہی کہانی سنی تھی کہ مجھے شرارت سوجھائی دی، رہا نہیں گیا تو میں نے ان کو ٹوک کر کہا حضرت ایک منٹ روکیے

ہرن کی جگہ کتے کر لیں سنا ہے لاکھوں کے کتے ہیں اور رکھوالی کرتے ہیں۔

میری طرف بہت غور سے دیکھ کر تاکید کرنے والے انداز میں انگلی ہوا میں لہرا کر بولے تم صبر سے کام لو جس بادشاہ کا میں ذکر کرتا ہوں اس کا ہرن تھا کتے نہیں۔

خیر آگے سنو۔۔ تو میں کہاں تھا ہاں یاد آ گیا۔۔۔

بادشاہ نے پوری فوج لگا دی کئی دن گزر گئے مگر ہرن کو ملنا ہی کب تھا جو ملتا اور پھر سے بادشاہ کے مرجھائے ہوئے چہرے پر گلاب کھلتا۔

بادشاہ نے انعام رکھ دیا۔ دربار میں سے کسی نے اٹھ کر کہا۔۔

جان کی امان چاہتا ہوں حضور، سنا ہے فلاں ملک کے ادارے بہت قابل ہیں بلوا لیتے ہیں خدمات حاصل کر لیتے ہیں ممکن ہے تلاش سے مل جائے اور حضور اقدس کا چہرہ کھل جائے۔

حکم ہوا بلا لو خوب خدمت کرو ۔

کچھ دن خوب خدمت کی گئی اور پھر تلاش کے لیے ساز و سامان دے کر بھیجا گیا مگر ناکام لوٹے، واپس بھیج دیے گئے۔

اسی طرح کئی دوسری ریاستوں کی طرف سے بھی امداد کے لیے بلوائے گئےمگر کسی کو بھی کامیابی حاصل نہ ہوئے بادشاہ کی پریشانی میں اضافہ ہوتا دیکھ کر اور صحت کی خرابی دیکھ کر درباریوں میں سے پھرکسی نے ہمت کی، کھڑا ہوا، کہنے لگا

حضور اب کہ اگر پاکیشیا سے امداد کی درخواست کی جائے تو شاید ہماری مشکل آسان ہو سکے۔ سب نے اس شخص کی ہاں میں ہاں ملائی اور سوچا کہ چلو اتنے دیکھ لیے ان کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور ہم آواز ہو کر کہنے لگے کہ سرکار ہم نے بہت چرچا سنا ہے، تلاش کرتے ہیں تو زمین کے اندر سے بھی شے مل جاتی ہے۔ رنج و غم دور ہوتا ہے چاک دامنی، سل جاتی ہے۔

نڈھال بادشاہ نے اشارے سے بلوا لینے کا حکم صادر فرما دیا۔

یہاں تک کہانی سنانے کے بعد محترم نے ٹھنڈی چائے کی لمبی سی چسکی لی اور پیالی ٹیبل پر ایک طرف کر کے رکھ دی اس کے بعد بائیں ہاتھ والی جیب سے سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر نکالا اس کے بعد ڈبی کو دائیں ہاتھ میں پکر کر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر زور زور سے دو دفعہ مارا اور سگریٹ نکال کر روشن کر لی۔

چارپائی پر خود کو ایک بار پھر سے درست کر کے بیٹھنے کے بعد ایک لمبا کش لگایا اور کہنے لگے

ہاں تو میں کہاں تھا۔

میں جو بہت دیر سے چپ تھا بے ساختہ بولا جناب کسی پاکیشیائی امداد پر تھے۔۔

تو کہنے لگے ہاں ہاں آگے سنو۔۔۔۔ پھر ایک اور کش لگانے کے بعد بولے۔۔

پاکیشیائی امداد کو ڈھول ڈھمکے اور ترتریوں سے خوش آمدید کہا گیا، دربار میں پیش کیا گیا امدادی ٹیم کے سربراہ نے مونچھوں کو مروڑا اور اپنے بڑے سے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر سر جھکایا، پھر گویا ہوا،

حضور کا اقبال بلند رہے حضور کے شوق سلامت رہیں ہرن تو کیا اس کی سات نسلیں بھی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ بس کرم نوازی ہو گی اگر آپ جیبیں بھر دیں گے۔ ہماری طرف تو برا حال ہے جناب ہر پاسے ہڑتال ہے۔ آپ حکم کیجے ابھی ہم تلاش شروع کریں تو شام سے پہلے خوش خبری لائیں۔

لو جی بادشاہ نے ابھی ہاں یا انکار میں جواب تک نہ دیا تھا کہ امدادی ٹیم نکل کھڑی ہوئی چپا چپا چھان مارا کہیں سے ہرن نہیں ملا ایک بولا سرکار آج اگر ہرن نہیں ملا تو عزت لٹ جائے گی۔

سرکار نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ ایک لمحے کو سوچا، اور پھر بولے، جھیرے تم کہتے تو ٹھیک ہو۔ چلو کچھ تو کرنا ہی پڑے گا اتنے میں ایک ہاتھی نظر آیا تو سرکار نے چیخ کر کہا مل گیا ہرن مل گیا ہرن پھڑو اینو سب نے مل کر ہاتھی کو پکڑ لیا اور ہاتھی کے ارد گرد کھڑے ہو کر اسے گھورنے لگے۔

ہاتھی جو سمجھ چکا تھا کہ اب موت قریب ہے ڈرتے ڈرتے بولا جناب میری غلطی کیا ہے؟

اب کہانی کا یہ جملہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا اور جناب نے سگریٹ کا ایک کش لے کر مجھے دیکھتے ہوئے کہاں ہاں بھئی سنڑا کہانڑی کیجی اے اور پھر سگریٹ منہ میں دبا لیا۔ میں نے کہا کہانی ختم ہو گئی تو اچانک بولے

ہلے کتھے صبر کر۔

میں خاموشی سے بیٹھ گیا اور وہ سگریٹ پینے لگے آخری کش لگا کر سگریٹ پھینکا اور پھر بولے۔۔

سرکار نے مونچھیں مروڑیں اور ہاتھی کو گھور کر کہا

تو ہرن ہے، تیری بڑی بڑی آنکھیں ہیں، ہرنی جیسی چال ہے،چھلاوے کی طرح بھاگتا ہے۔ یاد نہیں کچھ دن پہلے بادشاہ کے دربار سے بھاگ گیا تھا اور اس جنگل میں چھپا پھرتا ہے۔۔

ہاتھی کہنے لگا سرکار میں آپ کو کہا سے ہرن نظر آتا ہوں سرکار نے ہاتھی کے گال پر ایک چھاپڑ رسید کیا پھر دوسرا پھر تیسرا اچانک ہاتھی تلملا کر بول اٹھا۔۔

سرکار بس کر دیں میں ہی ہرن ہوں، میں ہی ہرن ہوں

اب کی بار سرکار نے تنزیہ اور فخریہ انداز میں مونچھوں کے ایک کنارے کو ضرور سے مروڑا اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ اس ہرن کو دربار لے چلو۔

بادشاہ جو دربار میں بے چینی کا مارا ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا اچانک پاکیشیائی امداد کو ہاتھی کے ساتھ دربار میں داخل ہوتا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔

سرکار نے آگے بڑھ کر بادشاہ کی خدمت میں سلام پیش کیا اور ہاتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضور آپ کا ہرن مل گیا ہے۔

بادشاہ یہ بات سن کر شدید غصے میں آ گیا مگر صبر سے کام لیتے ہوئے بولا کہ سرکار آپ ہمیں اندھا سمجھتے ہیں یہ ہاتھی ہے ہرن نہیں۔
سرکار نے ہاتھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بادشاہ سے کہا

حضور آپ اس سے خود پوچھ لیں۔

بادشاہ یہ بات سن کر ابھی پوری طرح سے پریشان بھی نہیں ہوا تھا کہ ہاتھی چیخنے لگا کہ بادشاہ سلامت میں آپ کا ہرن ہوں فلاں تاریخ کو فلاں روز فلاں وقت میں فلاں دروازے سے بھاگ گیا تھا اور راستہ بھول گیا مجھے معاف کر دیجے میں آپ کا ہرن ہوں مجھے اپنے پاس رکھ لیجے

بادشاہ ہکا بکا رہ گیا۔ ہاتھی اپنی زندگی بچانے کے لیے ہرن بن گیا اور سرکار مسلسل مسکراتی رہی اور اپنے موٹے سے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی رہی۔

لو جی کہانی ختم۔

اب میری حیرانی کی انتہا ہو چکی تھی میں نے ان صاحب کو کہا کہ جناب یہ کہانی جو آپ نے سنائی ہے اس کا کوئی سر پیر تو ہے ہی نہیں۔ کہاں ہاتھی کہا ہرن کہاں بادشاہ اور کہاں بادشاہوں کے شوق، آپ رہنے ہی دیں ایسی کہانیاں ہماری سمجھ سے تو باہر ہیں۔

میری یہ بات سن صاحب مسکرائے چارپائی سے پیر نیچے اتار کر پیر سے ہی جوتا ٹٹولنے لگے جوتے میں ایک پائوں رکھ کر بائیں ہاتھ والی جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی دو بار بائیں ہاتھ پر ٹھونک کر کھولی اور سگریٹ سلگا لیا۔ اور کش لے کر کہنے لگے

او سیانے غیر سیاسی، غیر مذہبی، غیر سرکاری کہانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ میری کہانی پسند نہیں آئی تو تم کوئی سنا دو۔

میں نے ہوٹل والے کو آواز دی پیسے جیب سے نکال کر پکڑائے اور اجازت لے کر گھر کی جانب چل پڑا۔ خیر آپ لوگ پریشان نہ ہوں اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یقناً آپ بھی پریشان ہو گئے ہوں گے مزید اس سے بہتر اور اچھی تحریریں پڑھنے کے لیے آپ ہماری ویب سائٹ پر آتے جاتے رہیں 🙂

اس تحریر پر ریٹنگ کیجے

ریٹنگ 0 / 5. 0

سید حسن

بتانے کو تو لوگ علم کا پہاڑ بھی بتاتے ہیں مگر میرا مختصر سا تعارف بس اتنا ہے کہ قلمی نام سید حسن، تعلق پاکستان، پنجاب سے ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ اور بلاگنگ سے کافی پرانی شناسائی ہے اور کمپیوٹر کے علوم میں طالب علم کی حیثیت سے ابھی تک صرف ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کر سکا ہوں۔ www.urdumea.com کو میری کم علمی کا ایک ثبوت سمجھیں اس کے علاوہ www.syedhassan.online بھی ایک اور ناکام کوشش ہے۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر کم پڑھ ہوں اور پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ اگر میری یہ کوششیں آپ کی نظروں کے سامنے ہیں تو امید کرتا ہوں کہ آپ کی علمی طبیعت پر ناگوار نہیں ہوں گیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Discover more from Urdumea.com

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading