اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر
ڈائیپر اردو شارٹ سٹوری کا مختصر تعارف
اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر اردو کی ایک مختصر کہانی (urdu short stories) ہے جس میں ایک باپ کے جذبات ایک ماں کی مشکلات اور ایک ننھے سے بچے کی "گیلی قید” کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں جدید دور کے ڈائیپر پنجاب کے کچھ علاقوں میں "پوتڑے” کے نام سے مشہور تھے یہ پوتڑے کپڑے کے ایک چھوٹے ٹکڑے سے بنائے جاتے تھے جس کے تین کونے ہوا کرتے تھے تینوں کونوں پر چھوڑے چھوڑے گول دائرے یعنی رنگ بھی بنا کر لگائے جاتے تھے تاکہ تینوں کونوں کو ایک دوسرے کونے کے رنگ میں سے گزار کر باندھا جا سکے۔
پوتڑے یعنی ڈائیپر لفظ کے معنی
لفظ "پوٹرے” کے معنی دیکھنے کے لیے ریختہ ڈکشنری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اوپر اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر (Urdu Short Story) کے تعارف میں اس کے استعمال کے متعلق جو ذکر کیا گیا ہے وہی اس کا معنی بھی ہے۔ پہلے زمانہ میں محاورہ میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ چھٹّی کے پوتڑے اَب تَک نَہیں سوکھے یعنی بچہ بڑا تو ہو رہا مگر ابھی تک نا تجربہ کار ہے
کچھ علاقوں میں اب بھی اس طرح کے ڈائیپر یعنی پوتڑے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جدید دور کے ماں باپ یقیناً پوتڑوں سے واقف نہیں ہوں گے۔ آج کی یہ اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر (urdu short stories) جدید دور میں استعمال کیے جائے والے ڈائیپرز یعنی "پوتڑوں” کے متعلق ہے اور اسے پڑھ کر یقیناً آپ لطف اندوز ہوں گے۔
اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر
دفتر سے گھر پہنچا انگریزی لباس تبدیل کر کے کھلی شلوار اور قمیض پہننے کے بعد ہاتھ منہ دھو کر اپنا آپ جیسے ہوا سے بھی ہلکا اور آزاد آزاد سا محسوس کر رہا تھا۔ نیچے سے اوپر آتے ہوئے بیٹے کو بھی گود میں اٹھا کر ساتھ لے آیا تھا اور بیڈ پر بٹھا کر سامنے کچھ کھلونے رکھ دیے تھے۔ بیڈ پر بیٹھنے سے پہلے میں نے بیٹے کے ڈائپر کو اچھی طرح چک کیا اور اندازہ کر لیا تھا کہ کچھ دیر مزید گزر جائے گی یعنی مزید گھنٹے دو یہ ڈائپر چل جائے گا۔
تکیہ درست کر کے ٹیک لگائی اور نیم دراز ہو لیا۔ اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ نرم بستر اور تکیہ دستیاب ہو تو تھکن میں آرام ملتا ہے اور حواس پر غنودگی کا سا عالم ہوتا ہے۔ میں بھی نیم وا آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے بیٹے کو دیکھتا رہا جو کھیلنے میں مصروف تھا۔
خیالات کب تھمتے ہیں میں بھی خیالات کے گہرے سمندر کے حسین ساحل پر تکیہ لگائے نیم دراز ہو چکا تھا اسی گہرے سمندر سے مختلف خیالات مختلف انداز میں الفاظ بنے لاشعور سے شعور کی طرف لہروں کی طرح ساحل سے ٹکرانے لگے اور اپنے نشانات چھوڑنے لگے۔
انہیں نشانات کو ملاتے ملاتے الفاظ جملوں میں اور جملے کہانیوں میں بدلنے لگے میں نے بائیں جانب دیکھا تو کہانی گو میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ کہانی گو دائیں ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں میں سگریٹ دبائے دونوں کہنیوں کو گھٹنوں پر ٹیکے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اور آخری دو انگلیوں کی مدد سے بائیں کلائی پکڑے کسی گہری سوچ میں بیٹھا تھا اچانک میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر ساحل کی جانب دیکھنے لگا۔ سگریٹ کا ایک گہرا کش لے کر دھواں ہوا میں چھوڑنے کے بعد پھر سے بائیں کلائی پر اسی طرح ہتھیلی اور آخری دو انگلیوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا
یار سید!
دنیا میں نا دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، چاہے تعلق ان کا دوسرے سے خون کا ہو یا دوستی کا یا پھر کسی اور حوالے سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، ایک طرح کے لوگ ہیں جو خود کو مشکل میں ڈال کر دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرح کے لوگ وہ جو خود کو مشکلات سے بچانے کے لیے دوسرے کو مشکلات میں ڈالے رہتے ہیں۔
یار سید! میں نے کل اپنے چھوٹے بیٹے کا ڈائیپر اتار دیا جو کہ چھوٹے کے سوسو سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے اس کو دھلایا اور یہ سوچ کر اسے بغیر ڈائیپر لگائے لٹا دیا کہ گرمی ہے بےچارہ بول کہہ نہیں سکتا سارا دن قید میں رہتا ہے۔
کتنا پریشان اور تنگ ہوتا ہو گا۔ ہمیں تو آٹھ سے دس گھنٹے انڈر ویئر میں گزارنے پڑ جائیں تو یہی سوچتے ہیں کہ اب اگلا پورا ہفتہ انگریزی لباس سے خدا کی پناہ۔ بھئی عجیب سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ قید خانہ ہو جیسے۔
بس میں نے یہی سوچ کر بیٹے کو دوبارہ ڈائیپر نہیں لگایا تھا کہ کچھ دیر آزادی محسوس کرے۔ ہاتھ پائوں چلائے۔ ہوا لگے اچھا محسوس ہو گا اسے۔ میں بھی تو تنگ ہوتا رہتا ہوں اور گھر پہنچ کر سب سے پہلے کھلا سا لباس پہنتا ہوں، لیکن یار سید!
جوں ہی میری بیگم کمرے میں داخل ہوئی اور بیٹے کو ڈائیپر کے بغیر دیکھا ایک دم سے شور مچا دیا اور کہتی ہی چلی گئی کہ
آپ نے اس کا ڈائیپر اتارا ہوا ہے یہ پورے بڈ پر "ننگ مننگ” گھوم رہا ہے ابھی گند فرما دے گا سارا بیڈ گندا ہو جائے گا اور مجھے سب کچھ دھونا پڑ جائے گا اور نجانے کیا کیا
ابھی بیگم صاحبہ کی تقریر جاری تھی کہ میں نے چھلانگ لگائی اور نیا ڈائیپر اٹھایا بیٹے کو ٹانگوں سے پکڑ کر قریب کھینچا اور کمال صفائی سے بیٹے کو قید خانہ یعنی ڈائیپر چپکا دیا۔
اگلے دن یہ سارا قصہ میں اپنے دوستوں کو بتا بیٹھا سب کے سب ہنسنے لگے کسی نے کہا لو جی حضرت آپ تو ہم سے بھی زیاد پہنچے ہوئے مرید نکلے، کسی نے کہا فرمان بردار بیٹا فرمان بردار شوہر بنتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر میں کیا کہہ سکتا تھا خاموش رہا وہ سب ہنستے رہے۔
یار سید! تو مان یا نا مان دنیا میں نا دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، چاہے تعلق ان کا دوسرے سے خون کا ہو یا دوستی کا یا پھر کسی اور حوالے سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، ایک طرح کے لوگ ہیں جو خود کو مشکل میں ڈال کر دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرح کے لوگ وہ جو خود کو مشکلات سے بچانے کے لیے دوسرے کو مشکلات میں ڈالے رہتے ہیں۔
اس نے ایک گہرا مگر آخری کش لیا دھوا ہوا میں پھونکا اور سگریٹ کو اپنے سامنے پھنک کر دائیں ہاتھ سے بائیں کلائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور خاموش ہو گیا۔
میں ابھی اس کی سنائی ہوئی اس ساری کہانے پر غور کر رہا تھا کہ اچانک مجھے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی ساتھ ہی کان میں بیگم کے سلام کی آواز آئی میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور احساس ہوا کہ میں نیم خوابی کے عالم میں تھا۔
بیگم صاحبہ نے بیٹے کو بیڈ پر کھیلتے اور خوش ہوتے ہوئے دیکھا تو فوراً سے اٹھا لیا اور ڈائیپر چک کرنے لگیں اور ساتھ ہی بولیں اس کا ڈائیپر لگا ہوا ہے نا، لیک تو نہیں ہوا آپ نے چینج کیا کہ نہیں ، ہٹیں بیڈ شیٹ اور بیڈ گندا تو نہیں ہوا اسی دوران ڈائیپر کو تسلی سے دیکھ بھال کر مجھے گھورا اور غصے سے بولیں
دیکھا نا کتنے لا پرواہ ہیں آپ ڈائیپر بھرا ہوا ہے ابھی سب کچھ گندا ہو جاتا تو کون دھوتا یہ سب۔
یہ کہہ کر بیگم صاحبہ نے ڈائیپر اٹھایا اور لگیں بدلنے۔
میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ
دیکھو نا کتنا چھوٹا ہے یہ تو اپنی پریشانی بتا بھی نہیں سکتا۔ کتنا تنگ ہوتا ہوگا تھوڑی دیر کو بغیر اس قید خانے کے چھوڑ دو۔
بیگم نے آنکھیں دکھائیں اور ایک بار پھر سے
ہاں ہاں میں نوکرانی ہوں آپ سب کی۔ ماسی بنی ہوئی ہوں۔ یہ سب کچھ گندا کر دے آپ بے فکر بیٹھے رہیں اور میں سارا دن کپڑے اور بستر، چادریں، بیڈ، دھوتی رہوں۔ میرا اور کوئی کام نہیں ہے آپ اپنے لیے کوئی ماسی لے آئیں مجھے بخشیں پھر بیشک بیٹے کو کھلی ہوائیں لگوائیں۔
اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی میں اٹھا مسکرا کر بیگم کو دیکھا اور صرف اتنا کہا
بیگم پھر ماسی دیکھنے چلو گی ساتھ یا کسی اور کو لے جائوں۔ نکاح میں تو شامل ہو ہی جائو گی نا
ابھی میں نکاح تک ہی پہنچا تھا کے بیگم صاحبہ نے بیٹے کو بیڈ پر ڈالا اور میرے طرف گھومیں میں تیزی سے کمرے سے باہر کی طرف لپکا اور کچھ ہی دیر میں گھر سے ہی باہر پہنچ گیا۔
ہلکی ہلکی ہوا اور کھلی فضا کا احساس ہوا تو بہت اچھا محسوس ہونےلگا۔
آہستہ آہستہ چلتے چلتے میں چائے والے کے ہوٹل تک پہنچ گیا۔ چائے آرڈر کی اور سڑک کے کنارے ہوٹل کے سامنے رکھی ہوئی چارپائیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کھلی فضا سے لطف اندوز ہونے لگا۔
بیٹے کی قید کا خیال آیا مگر ساتھ ہی بیگم کی ڈانٹ کا بھی خیال آیا پھر کہانی گو کی کہانی بھی یاد آئی مگر میرے لیے یہ ہی بہت تھا کہ مجھے اس وقت قید محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
اردو شارٹ سٹوری ۔ ڈائیپر ختم ہوئی
امید ہے آپ کو یہ اردو شارٹ سٹوری (Urdu Short Story) پسند آئی ہو گی۔ اگر نہیں آئی تو بھی اتنا ضرور ہوا ہو گا کہ آپ کو کھلا کھلا اور آزاد محسوس ہوا ہو گا 🙂 خوش رہیں سلامت رہیں آزاد رہیں اور ہماری ویب سائٹ اردو میں ڈاٹ کام پر آتے جاتے رہیں۔
یاد آیا آپ ہماری اس ویب سائٹ پر اردو کہانی و افسانے کی کیٹاگری میں موجود مزید اردو شارٹ سٹوریز (urdu short stories) بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اپنی رائے سے کمنٹس باکس میں ضرور آگاہ کیجے۔
اگر آپ نے بھی کوئی کہانی لکھی ہے تو ہمیں دیجے ہم اپنی ویب سائٹ پر آپ کے نام کے ساتھ شائع کریں گیں۔